کلہاڑی کا شوربہ (فاطمہ کا ظمی ۔ فیصل آباد )
اس نے منت بھرے انداز میں کہا۔ بڑھیا کو رحم آگیا۔ اس نے دروازہ کھول دیا لیکن پھر فوراً ہی بولی: ”تمہیں پناہ تو مل سکتی ہے لیکن کچھ کھانے پینے کی امید مت رکھنا۔ میرے پاس تمہیں دینے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے۔
بہت پہلے کی بات ہے، کسی بستی کے باہر ایک بڑھیا رہتی تھی۔ ویسے تو وہ بہت اچھی تھی۔ مہربان، ملنسار اور محبت کرنے والی، لیکن بس ذرا کنجوس تھی۔ دوسروں کے دکھ سکھ میں شریک ہوتی، بہت محبت اور خلوص سے پیش آتی لیکن جیسے ہی کوئی اس سے کوئی چیز مانگتا فوراً ہی مسکین سی صورت بنالیتی اوراپنے آپ کو دنیا کی غریب ترین ہستی ثابت کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑتی۔ سب لوگ بڑھیا کی اس عادت سے واقف تھے لہٰذا اس سے کچھ مانگنے سے گریز ہی کرتے۔ یہاں تک کہ اس کے گھر آنا جانا بھی کوئی پسند نہ کرتا۔ رفتہ رفتہ لوگوں نے اس سے ملنا جلنا ہی چھوڑ دیا۔ بڑھیا اگر کسی سے بات کرنے کی کوشش بھی کرتی تو وہ منہ پھیر کرچلا جاتا۔ یوں بڑھیا بالکل تنہا ہوکر رہ گئی۔ بڑھاپے کے باوجود اپنا ہر کام خود کرتی۔ کوئی اس کا پرسان حال نہیں تھا۔ لوگوں کے تکلیف دہ رویے کی وجہ سے وہ بہت چڑچڑی اور بدمزاج ہوگئی تھی۔
ایک مرتبہ سردیوں کی ایک رات زبردست طوفان آگیا۔ بادلوں کی گرج اور بجلی کی کڑک سے کان پھٹے جارہے تھے۔ بڑھیا سہم کر بستر میں دبک گئی۔ وہ تنہا اور خاموش اپنے بستر میں لیٹی سوچوں میں گم تھی۔ اچانک دروازے پر دستک ہوئی۔ بڑھیا نے سمجھا، شاید یہ اس کا وہم ہو، لیکن نہیں۔ دستک دوبارہ سنائی دی بلکہ اب تو کوئی لگاتار دروازہ پیٹ رہا تھا۔ بادل زور زور سے گرج رہے تھے، بجلی چمک رہی تھی۔ رات بہت ڈراﺅنی تھی۔ بڑھیا خوف زدہ ہوگئی لیکن جب دستک مسلسل ہوتی ہی چلی گئی تو بڑھیا ہمت کرکے اٹھی، کانپتی ہوئی دروازے پر پہنچی اورکپکپاتی ہوئی آواز میں پوچھا۔
” کون ہے ؟“ باہر سے چلا کر کہا گیا :”میں ایک بیمار مسافر عورت ہوں۔ مجھے رات بھر کے لیے پناہ چاہیے۔“
بڑھیا نے جواب دیا: ”میں گھر میں اکیلی ہوں۔ اس لیے تمہیں پناہ دینے کا خطرہ مول نہیں لے سکتی۔ اگر تم کوئی چور اچکی نکلی تو۔“
”اماں جی! میں بیمار ہوں، اگر آپ نے اس طوفانی رات میں مجھے پناہ نہیں دی تو میں ٹھٹھر کر مرجاﺅں گی۔ اللہ کے لیے دروازہ کھولیے۔“ اس نے منت بھرے انداز میں کہا۔ بڑھیا کو رحم آگیا۔ اس نے دروازہ کھول دیا، لیکن پھر فورا ہی بولی:
”تمہیں پناہ تو مل سکتی ہے لیکن کچھ کھانے پینے کی امید مت رکھنا۔ میرے پاس تمہیں دینے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے۔“ بیچا ری نے بڑھیا سے وعدہ کیا کہ وہ کسی چیز کا تقاضا نہیں کرے گی۔
اندر آکر اس نے جلتی ہوئی آگ کے سامنے اپنا لباس خشک کیا اور سونے کی غرض سے بستر پر لیٹ گئی لیکن اسے بہت بھوک محسوس ہورہی تھی اس لیے اسے نیند نہیں آرہی تھی۔ وہ سوچ رہی تھی کہ بڑھیا سے کھانے کے لیے کیسے کچھ حاصل کیا جائے۔ آخر ایک ترکیب اس کے ذہن میں آئی۔ اس نے بڑھیا سے کہا: ”اماںکیوں نہ کلہاڑی کا شوربہ پکایا جائے“ ”وہ کیسے پکایا جاتاہے۔“ بڑھیا نے حیران ہو کر کہا۔
”ایک ہنڈیا اور چمچہ تو آپ کے پاس ہوگا۔ لائیے میں آپ کو کلہاڑی کا شوربہ پکا کر دوں۔“
بڑھیا جلدی سے ہنڈیا اورچمچ لے آئی۔ عورت نے اپنی کلہاڑی کو دھوکر ہنڈیا میں ڈالا اور اس میں پانی بھر کر پکنے کے لیے چولہے پر چڑھا دیا اور پھر بہت محبت بھرے انداز میں بڑھیا ادھر ادھر کی باتیں کرنے لگی۔ بڑھیا اس کی ہمدردی اور اخلاق سے بہت متاثر ہوئی اور اس کے دل سے تمام شکوک و شبہات دور ہوگئے۔
با توں کے دوران عورت نے ہنڈیا میں سے کچھ پانی لے کر چکھا اور بولی:
”بہت اچھا پک رہا ہے، لیکن اگر تھوڑی سی دال اس میں ڈال دی جاتی تو کیا ہی بات تھی۔“
بڑھیا کچھ سوچ کر اٹھی اور تھوڑی سی دال لے آئی۔ عورت نے دال صاف کر کے ہنڈیا میں ڈال دی۔ ہنڈیا پکتی رہی اور ساتھ ساتھ باتیں بھی جاری رہیں۔ عورت نے اپنی میٹھی میٹھی باتوں سے بڑھیا کا دل موہ لیا تھا۔ چند لمحے اس نے پھر شوربہ چکھا اور بولی:
”اماں ! شوربہ تو بہت مزیدار تیار ہوا ہے، لیکن اگر کچھ نمک اور مرچ بھی اس میں شامل ہوجاتا، تو مزا دوبالا ہوجاتا۔ خیر! آپ کے پاس تو گھر میں کچھ نہیں ہے۔ ایسے ہی گزارا کرلیتے ہیں۔“
بڑھیا بولی: ” ٹھہرو! میں دیکھتی ہوں، شاید مل جائیں۔“ یوں وہ نمک مرچ بھی لے آئی جب کچھ مزید پک چکا تو عورت نے پھر شوربہ چکھ کر دیکھا اور کہا: ”واہ کیا کہنے! کاش تھوڑا سا دیسی گھی مل جاتا۔“ پھر جلدی سے بولی ”چلیے خیر کوئی با ت نہیں“
بڑھیا خاموشی سے گئی اور اور دیسی گھی بھی لے آئی جب شوربہ اچھی طرح تیار ہوگیا، تو عورت نے برتن میں ڈال کر بڑھیا کو پیش کیا۔ ساتھ ہی چپکے سے یہ بھی کہہ دیا: ”اگر آپ اس کو چپاتی کے ساتھ کھاتیں، تو مزا دوچند ہوجاتا۔“
بڑھیا خوشی خوشی رات کی پکی ہوئی روٹیاں بھی اٹھا لائی۔ عورت نے پیٹ بھر کر کھانا کھایا اور آرام سے سوگئی۔ صبح تڑکے عورت تو اپنی منزل کو سدھاری، مگر بڑھیا اکثر اس مسافر عورت اور کلہاڑی کے شوربے کو یاد کرتی۔
دیکھا، آپ نے کلہا ڑی کا شوربہ پکانے کا کتنا فائدہ ہے؟
وہ سہیلی نہیں کوئی چڑیل تھی
دس پندرہ سیکنڈ گزر گئے لیکن رابعہ کی کمرہ سے واپسی نہ ہوئی۔ میںنے پھر دروازے سے جھانک کر دیکھا کہ رابعہ اسی طرح کھڑی ہے اور باتیں کررہی ہیں۔ میں نے سوچا کہ رابعہ تو میری سہیلی تھی جو مرگئی تھی
روزمرہ زندگی میں ہمیں عجیب و غریب اور مافوق الفطرت حالات اور واقعات سے واسطہ پڑتا ہے۔ ایسے واقعات ہمارے ذہن پر نقوش چھوڑ جاتے ہیں اور تا زندگی ہم انہیں فراموش نہیں کرسکتے۔
میں اور میری سہیلی رابعہ ہوسٹل میں رہتی تھیں۔ ہم دونوں اکٹھی پڑھتی تھیں۔ گرمیوں کی چھٹیوں میں رابعہ اپنے گھر چلی گئی اچانک اس کی طبیعت خراب ہوگئی اور اللہ کو پیاری ہوگئی تھی۔ مجھے میری سہیلی کا پتہ چلا تو میں بہت افسوس زدہ ہوئی۔ رابعہ کے ایصال ثواب کے لیے دعا مانگی اور فاتحہ پڑھی۔ جب میں لاہور سے ہارون آباد پہنچی تو ہمیں ایک تین منزلہ مکان الاٹ کیا گیا۔ ہمیں وہاں پڑے ہوئے کچھ سامان سے اندازہ ہوا کہ شاید بہت پرانا مکان ہے۔ سب سے اوپر والی چھت کے ایک طرف ایک چھوٹا سا کمرہ تھا جس میں فالتو سامان پڑا تھا۔ چونکہ شدید گرمی تھی لہٰذا میں نہانے چلی گئی۔ نہانے کے فوراً بعد میں چھت پر چلی گئی۔ وہا ں پہنچی تو دیکھا کہ چھت والے کمرے کا دروازہ کھلا ہوا ہے۔ سوچا کہ شاید کسی کو کسی ایسی چیز کی ضرورت آن پڑی ہے جو اس کمرے کا دروازہ کھلا ہے۔ اس کمرہ کا ایک ہی دروازہ تھا جو باہر سڑک کی جانب بالکنی میں جاکر کھلتا تھا۔ خیر میں نے کمرہ کی چوکھٹ پر کھڑے ہو کر اندر جھانکا تو دیکھا کمرے میں اندھیرا ہے اور دوسری طرف بالکنی میں میری سہیلی رابعہ اپنا چہرہ دوسری طرف کیے کھڑی ہے چونکہ را بعہ ہروقت چشمہ لگائے رکھتی تھی۔ میں نے رابعہ کو کھڑے کھڑے آواز دی۔ رابعہ را بعہ لیکن اس کی طرف سے کوئی جواب نہ ملا۔ دس پندرہ سیکنڈ گزر گئے لیکن رابعہ کی کمرہ سے واپسی نہ ہوئی۔ میںنے پھر دروازے سے جھانک کر دیکھا کہ رابعہ اسی طرح کھڑی ہے اور باتیں کررہی ہے۔ میں نے سوچا کہ رابعہ تو میری سہیلی تھی جو مرگئی تھی۔ اب یہ رابعہ جیسی لڑکی کون ہے، میں بہت حیران ہوئی جب میری بہنوں نے مجھے سنجیدہ دیکھا تو کہنے لگیں کہیں تم پاگل تو نہیں ہوگئی۔ میں بہت پریشان ہوگئی جیسے میں نے چھت پر دیکھا رابعہ نہیں بلکہ کوئی ہوائی مخلوق یا چڑیل تھی۔ فوراً میں اپنی بہن کے ساتھ چھت پر گئی لیکن وہاں کچھ بھی نہ تھا۔ کمرے کا دروازہ بدستور بند تھا اور اس کے دروازے پر تالا لگا ہو اتھا۔ یہ سب کچھ دیکھ کر میں پسینہ سے شرابور ہوگئی اور کانپنے لگی۔ پھر ہم سب لوگ نیچے آگئے۔ اس واقعہ کے بعد آج تک مجھ میں اتنی ہمت پیدا نہیں ہوسکی کہ میں چھت پر اکیلے جاسکوں۔ چاہے دن ہو یا رات جب بھی میں چھت پر جانا چاہتی ہوں تو کسی نہ کسی کو اپنے ساتھ ضرور لے کر جا تی ہوں ۔
ڈراﺅنی عورت سے چھٹکا را
میں 15 مارچ کو اپنے والدین کی دعاﺅں سے ہارون آباد پہنچ گیا۔ میں سٹاف کی کار کے ڈرائیور کے ساتھ دفتر جانے کے لیے نکلا۔ کار بڑے آرام سے اپنے سفر پر جارہی تھی۔ اس وقت میں دعا میں مشغول تھا کہ اچانک کار ایک زبردست جھٹکے کے بعد بند ہوگئی۔ ڈرائیور جس کا نام رﺅف تھا کافی پرانا اور تجربہ کار تھا۔ نیچے اتر کر اس نے انجن کو چیک کیا تو وہ ٹھیک تھا۔ ہم کار کے بالکل سامنے تھے کہ یک دم کار کی لائٹیں روشن ہوگئیں۔ پھر کار خود ہی سٹارٹ ہوگئی۔ ہمیں یہ دیکھ کر بڑی حیرانی ہوئی۔ اچانک ڈرائیور رﺅف دوڑ کر مجھے کھینچتا ہوا ایک طرف کود پڑا کیونکہ کار آگے بڑھ رہی تھی۔ پھر ہمیں ایک زوردار قہقہے کی آواز سنائی دی۔ یہ آواز ایک عورت کی تھی جو ہماری گاڑی میں بیٹھی تھی۔ ڈرائیور کو جو میرے ساتھ تھا نہ جانے کیا ہوا کہ زور زور سے رونے اورچیخنے لگا۔ میں نے ڈرائیور کو مضبوطی سے تھام لیا اور آیت الکرسی کا ورد شروع کردیا۔ بعدازاں جونہی میں نے درود شریف شروع کیا مجھے گا ڑی میں ایک بھیانک، خوفناک ڈراﺅنی عورت بھی چڑیل نظر آئی جس کا سر آسمان سے باتیں کررہا تھا۔ میں نے دل میں کلمہ پڑھ لیا کہ میری خیر نہیں لیکن جب وہ مجھے چھونے لگتی تو جھٹکے سے دور ہٹ جاتی۔ میں نے دوبارہ دوبارہ آیت الکرسی کا ورد شروع کردیا اب تو ہر طرف دھواں ہی دھواں نظرآرہا تھا اب کیا تھا، چڑیل آگ میں لپٹی نظر آرہی تھی۔ اچانک ایک آواز گونجی‘ تم دونوں آج صرف اس وجہ سے زندہ بچے کیونکہ تمہارے پا س ضرور کوئی چیز ہے ورنہ تم کچھ نہیں کرسکتے تھے لیکن تم کو معاف نہیں کروں گی۔ میں نے روتے روتے اللہ کا شکر ادا کیا اور کھڑا ہو کر اسے غور سے دیکھا تو وہاں کوئی عورت یا چڑیل تھی نہ دھواں، ڈرائیور راﺅف کو ہوش آیا تو بھا گ نکلا۔ ( بیگم شیخ احمد‘ ہا رون آباد)
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں